Announcement

Collapse
No announcement yet.

I see you and your people in manifest error.

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • I see you and your people in manifest error.

    بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
    Wednesday, 24 February 2010
    Quran. 6 Aya. 74,75
    وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ [٦:٧٤]
    وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ [٦:٧٥]
    اور (یاد کیجئے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر (جو حقیقت میں چچا تھا محاورۂ عرب میں اسے باپ کہا گیا ہے) سے کہا: کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو صریح گمراہی میں (مبتلا) دیکھتا ہوں،
    اور اسی طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھائیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں ہوجائے،
    And (remember) when Ibrhim (Abraham) said to his father Azar: "Do you take idols as lih (gods)? Verily, I see you and your people in manifest error. "
    Thus did we show Ibrhim (Abraham) the kingdom of the heavens and the earth that he be one of those who have Faith with certainty.
    TAFSEER
    [٨١] یعنی جس دن اللہ تعالیٰ اس جہان کو درہم برہم کرنا چاہے گا۔ تو فرشتہ اسرافیل صور میں پھونک مارے گا۔ اس سے زمین پر آباد تمام مخلوق مر جائے گی۔ پھر کچھ مدت کے بعد دوبارہ صور میں پھونکا جائے گا جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔
    خ نفخہ صور دوبار ہوگا ۔ اورعجب الذنب:۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صور دو بار پھونکا جائے گا اور ان دونوں میں چالیس کا فاصلہ ہوگا۔ لوگوں نے پوچھا ''چالیس دن کا؟'' کہنے لگے '' میں نہیں کہہ سکتا'' لوگوں نے کہا ''چالیس ماہ کا؟'' کہنے لگے ''میں نہیں کہہ سکتا'' پھر لوگوں نے پوچھا ''چالیس برس کا؟'' کہنے لگے ''میں نہیں کہہ سکتا'' اس کے بعد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا تو لوگ زمین سے اس طرح اگ آئیں گے جسیے سبزہ اگ آتا ہے۔ دیکھو! آدمی کے بدن کی ہر چیز گل سڑ جاتی ہے مگر ایک ہڈی (کی نوک) وہ اس مقام کی ہڈی ہے جہاں جانور کی دم ہوتی ہے قیامت کے دن اسی ہڈی سے مخلوق کو جوڑ جاڑ دیا جائے گا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر سورہ النبا آیت نمبر ١٨)
    خ معبود حقیقی کی چند صفات:۔ معبودان باطل اور ان کے پرستاروں کی تردید کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں معبود حق کی یعنی اپنی ایسی چھ صفات بیان فرمائیں جو صرف اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرے کسی باطل معبود میں ان کا پایا جانا ناممکن ہے اور وہ یہ ہیں (١) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین یعنی اس کائنات کو تعمیری نتائج کا حامل بنا کر پیدا کیا ہے (٢) پھر وہ اس کائنات میں وسعت بھی پیدا کرتا رہتا ہے اور تغیر و تبدل بھی۔ جب اسے کچھ کرنا منظور ہوتا ہے تو وہ اس کے ہو جانے کا حکم دے دیتا ہے اور وہ چیز یا حادثہ وجود میں آنا شروع ہو جاتا ہے۔ (٣) اس کی ہر بات کا ہر حکم سچا اور ٹھوس حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ (٤) جس دن اسے اس کائنات کو ختم کر کے روز آخرت میں لانا منظور ہوگا۔ تو اس عالم آخرت میں بھی اسی کی مکمل طور پر فرمانروائی ہوگی۔ (٥) اس کے لیے غیب اور شہادت سب کچھ یکساں، اس کی نظروں کے سامنے اور اس کے علم میں ہے شہادت سے مراد وہ اشیاء ہیں جو کسی انسان کے سامنے موجود ہیں یا ان تک انسان کی دسترس ہوچکی ہے یا ایسے طبعی قوانین جو انسان کے علم میں آ چکے ہیں اور غیب سے مراد ایسی اشیاء ہیں جو انسان کے علم میں نہیں آئیں خواہ وہ ماضی سے تعلق رکھتی ہوں یا مستقبل سے یا ایسے تمام قوانین جن تک تاحال انسان کی رسائی نہیں ہو سکی ایسی سب باتیں اللہ کے علم میں ہیں۔ (٦) اس کے ہر کام میں اور ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور موجود ہوتی ہے خواہ انسان کو اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ اس لیے کہ وہ ہر چیز کی قلیل سے قلیل مقدار تک سے بھی پوری طرح باخبر ہے۔
    [٨١۔١] ابراہیم کا کائناتی مطالعہ:۔ نجوم پرستی کا آغاز عراق کے علاقہ میں سیدنا ابراہیم کی بعثت سے بہت پہلے ہو چکا تھا۔ ستاروں اور چاند، سورج وغیرہ کی ارواح کی تصوراتی شکلیں متعین کر کے ان کے مجسمے بنائے جاتے اور ان مجسموں کو مندروں میں پرستش کے لیے رکھا جاتا تھا۔ ان سیاروں کے انسانی زندگی پر طرح طرح کے اثرات تسلیم کیے جاتے تھے اور لوگ اپنی زندگی اور موت، مرض اور صحت، خوشحالی اور تنگ دستی ایسے ہی کئی دوسرے امور کو سیاروں کی چال سے منسوب کرتے اور ان کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے متعلقہ ستاروں کے مجسموں کے سامنے مندروں میں نذر و نیاز پیش کرتے تھے۔ مندروں کے نام پر بڑی بڑی جاگیریں وقف ہوتیں اور ان کے سرمایہ کو تجارت اور صنعت پر بھی لگایا جاتا اور یہ سب کام مندروں کے پجاریوں کی معرفت طے پاتے تھے۔ اس طرح کہ یہ جاگیر دار اور سرمایہ دار ملک کے تمدن، معیشت اور سیاست پر بہت حد تک اثر انداز ہوتے تھے۔ سیدنا ابراہیم کا باپ ایسے ہی کسی بڑے مندر کا شاہی مہنت تھا۔ نذرانے وصول کرنے کے علاوہ بت گری اور بت فروشی کا کاروبار بھی کرتا تھا۔ کھانے پینے کی فراغت کے علاوہ معاشرہ کے معززین میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ آپ نے ایسے ہی ماحول میں پرورش پائی۔ آپ کو معلوم ہوا کہ فلاں فلاں قسم کے بت فلاں ستارہ کے ہیں اور فلاں بت چاند کے اور فلاں سورج کے، علاوہ ازیں ان لوگوں نے اپنے شہروں کے نام بھی انہی بتوں کے نام پر رکھے ہوئے تھے۔ آپ کو بچپن میں ہی فطرت سلیمہ عطا ہوئی تھی۔ معاشرہ کی ان حرکات سے اور گھر کے ایسے ماحول سے ان کی طبیعت بے زار رہتی تھی۔ اور ہر وقت گہری سوچ میں پڑے رہتے تھے ایک دن انہوں نے رات کو ایک چمکدار ستارہ دیکھا جو کچھ عرصہ بعد مغرب میں جا کر غروب ہو گیا انہیں یکدم خیال آیا کہ جو چیز میرے پاس موجود بھی نہیں رہ سکتی وہ میری یا کسی دوسرے کی مشکلات کو کیا دور کرے گی۔ پھر چاند کو دیکھا تو اس کا بھی یہی حال تھا۔ پھر سورج پر غور کیا تو اس کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ جو ایک مقررہ رفتار سے چلتے ہوئے مشرق سے طلوع ہوتے اور مغرب میں غروب ہو جاتے تھے۔ انہوں نے سوچا جو چیزیں نظم و ضبط کی اس قدر پابند اور اپنے اپنے کام پر مجبور و بے بس ہیں وہ خدا کیسے ہو سکتی ہیں خدا تو وہ ہو سکتا ہے جس نے ان تمام چیزوں کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ آپ نے ایک طویل مدت ان حالات پر غور کیا بالآخر اللہ نے خود آپ کی رہنمائی کی اور آپ کو نبوت کے منصب پر سرفراز فرمایا اور وحی کے ذریعہ اس کائنات کے اسرار آپ پر منکشف کر دیئے۔ اس وقت آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے آپ کو ان تفکرات سے نجات دلائی جس میں آپ مدتوں سے سوچ بچار کر رہے تھے اور ان گمراہیوں سے نکال لیا جن میں آپ کی پوری کی پوری قوم ڈوبی ہوئی تھی۔ آپ کو جب یہ یقین حاصل ہو گیا تو سب سے پہلے آپ نے اپنے گھر سے اصلاح احوال کا آغاز کیا اور اپنے باپ سے کہا کہ آپ نے اور آپ کی قوم نے جو یہ مندروں میں بت ٹکا رکھے ہیں اور انہیں اپنا حاجت روا سمجھ رہے ہو یہ تو انتہائی غلط روش اور سراسر گمراہی ہے۔ باپ نے ڈانٹ پلا کر خاموش کر دیا تو آپ نے اپنی قوم کے دوسرے لوگوں کو یہی ہدایت کی باتیں سمجھانا شروع کر دیں۔
    HADEES MUBARAK
    صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 30 حدیث مرفوع مکررات 38 متفق علیہ
    سلیمان بن حرب، شعبہ، واصل، احدب، معرور کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر سے (مقام) ربذہ میں ملاقات کی اور ان کے جسم پر جس قسم کا تہبند اور چادر تھا اسی قسم کی چادر اور تہبند ان کے غلام کے جسم پر تھا، میں نے ابوذر سے اس کا سبب پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ میں نے ایک شخص کو (جو میرا غلام تھا) گالی دی یعنی اس کو ماں سے غیرت دلائی تھی، یہ خبر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (مجھ سے) فرمایا کہ اے ابوذر! کیا تم نے اسے اس کی ماں کی غیرت دلائی ہے، تم ایسے آدمی ہو کہ (ابھی) تم میں جاہلیت (کا اثر باقی) ہے تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، ان کو اللہ نے تمہارے قبضہ میں دیا ہے، جس شخص کا بھائی اس کے قبضہ میں ہو اسے چاہئے کہ جو خود کھائے اس کو بھی کھلائے اور جو خود پہنے وہی اس کو پہنائے اور (دیکھو) اپنے غلاموں سے اس کام کا نہ کہو جو ان پر شاق ہو اور اگر ایسے کام کی ان کو تکلیف دو تو خود بھی ان کی مدد کرو۔
    Volume 1, Book 2, Number 40:
    Narrated Abu Huraira:
    Allah's Apostle said, "If any one of you improve (follows strictly) his Islamic religion then
    his good deeds will be rewarded ten times to seven hundred times for each good deed and a
    bad deed will be recorded as it is."
    اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
    اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں

  • #2
    jazakAllah brother
    میں نےجو کیا وہ برا کیا،میں نے خود کو خود ہی تباہ کیا

    جو تجھے پسند ہو میرے رب،مجھے اس ادا کی تلاش ہے

    http://www.123muslim.com/discussion-...d-arround.html

    Comment

    Working...
    X