Announcement

Collapse
No announcement yet.

O you who believe, do not raise your voices

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • O you who believe, do not raise your voices

    بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
    Saturday, 27 February 2010
    Quran. 49 Aya. 2
    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ [٤٩:٢]
    اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو،
    O you who believe, do not raise your voices above the voice of the Prophet, and be not loud when speaking to him, as you are loud when speaking to one another, lest your good deeds should become void while you are not aware.
    TAFSEER
    [٢] یعنی جب تم نبی کی مجلس میں بیٹھے ہو تو ان کاادب و احترام ملحوظ رکھو۔ اس آیت کا شان نزول درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے:
    ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے سامنے آوازیں بلند کرنے کی بنا پر دو نیک ترین آدمی تباہ ہونے کو تھے یعنی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر جبکہ بنی تمیم کا ایک وفد (٩ھ) میں آپ کے پاس آیا (اور آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کا کوئی سردار مقرر فرما دیں) ان دونوں میں سے ایک نے اقرع بن حابس کی (سرداری) کا مشورہ دیا جو بنی مجاشع (بنو تمیم کی ایک شاخ) میں سے تھا اور دوسرے نے کسی دوسرے (قعقاع بن معبد) کے متعلق مشورہ دیا۔ نافع بن عمر کہتے ہیں کہ مجھے اس کا نام یاد نہیں رہا۔ اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدنا عمر سے کہنے لگے کہ: ''آپ تو مجھ سے اختلاف ہی کرنا چاہتے ہیں'' سیدنا عمر نے کہا: میں آپ سے اختلاف نہیں کرنا چاہتا'' (بلکہ یہ مصلحت کا تقاضا ہے) اس معاملہ میں دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ جب سے یہ آیت نازل ہوئی تو سیدنا عمر اتنی آہستہ بات کرتے کہ آپ کو ان سے پوچھنے کی ضرورت پیش آتی۔ لیکن انہوں نے یہ بات اپنے نانا (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ) کے متعلق نقل نہیں کی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)
    یہ ادب اگرچہ نبی کی مجلس کے لئے سکھایا گیا اور اس کے مخاطب صحابہ کرامث یا وہ لوگ تھے جو آپ کے زمانہ میں موجود تھے اور یہ ادب اس لئے سکھایا گیا تھا کہ لوگ آپ کو ایک عام اور معمولی آدمی نہ سمجھیں بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ وہ اللہ کے رسول کی مجلس میں بیٹھے ہیں۔ تاہم اس حکم کا اطلاق ایسے مواقع پر بھی ہوتا ہے۔ جہاں آپ کا ذکر ہو رہا ہو، یا آپ کا کوئی حکم سنایا جائے یا آپ کی احادیث بیان کی جائیں۔
    [٣] آواز مقابلتاً پست ہونی چاہئے:۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر نبی سے بات کرنا ہو تو بھی نبی کی آواز سے تمہاری آواز بلند نہ ہونا چاہئے۔ نیز مسجد نبوی میں کوئی بات عام آواز سے زیادہ اونچی آواز سے نہ کی جائے۔ اس بے ادبی کی تمہیں یہ سزا مل سکتی ہے کہ تمہارے نیک اعمال برباد کر دیئے جائیں۔ اس آیت کا جو اثر صحابہ کرامث پر ہوا وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے:
    سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ثابت بن قیس (بن شماس) کو (کئی روز تک اپنی صحبت میں) نہ دیکھا۔ ایک شخص (سعدبن معاذ) کہنے لگے: یا رسول اللہ ! میں اس کا حال معلوم کرکے آپ کو بتاؤں گا'' چنانچہ وہ گئے تو ثابت کو اپنے گھر سر جھکائے دیکھا اور پوچھا: ''کیا صورت حال ہے؟'' ثابت رضی اللہ عنہ کہنے لگے: برا حال ہے میری تو آواز ہی نبی سے بلند ہوتی تھی میرے تو اعمال اکارت گئے اور اہل دوزخ سے ہوا'' سعد نبی اکرم کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ ''تو یہ کچھ بتاتا ہے'' موسیٰ بن انس کہتے ہیں۔پھر ایسا ہوا کہ سعد بن معاذ ایک بڑی بشارت لے کر دوسری بار ثابت بن قیس کے ہاں گئے۔ آپ نے خود سعد کو ثابت کے ہاں بھیجا اور کہا کہ اسے کہہ دو کہ: تم اہل دوزخ سے نہیں بلکہ اہل جنت سے ہو'' (بخاری۔ کتاب التفسیر)
    یہ ثابت بن قیس خطیب انصار تھے۔ جب مسیلمہ کذاب مدینہ میں آپ سے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت سمجھوتہ کرنے کی غرض سے آیا تھا تو رسول اللہ نے انہی ثابت بن قیس کو اس سے گفتگو کے لئے مامور فرمایا تھا۔ ان کی آواز قدرتی طور پر بھاری اور بلند تھی۔ اس لئے آپ اس حکم سے ڈر گئے۔ آپ نے انہیں اس لئے اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا کہ وہ بے ادبی یا عدم احترام کی وجہ سے آواز بلند نہیں کرتے تھے۔ بلکہ قدرتی طور پر ہی ان کی آواز بلند تھی۔
    HADEES MUBARAK
    مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 824 مکررات 0
    حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرا سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر کہنا بلا شبہ میرے نزدیک اس چیز سے جس پر آفتاب طلوع ہوتا ہے (یعنی دنیا اور دنیا کی چیزوں سے زیادہ پسندیدہ ہے)(مسلم)
    Volume 1, Book 2, Number 46:
    Narrated 'Abdullah:
    The Prophet said, "Abusing a Muslim is Fusuq (an evil doing) and killing him is Kufr
    (disbelief)." Narrated 'Ubada bin As-Samit: "Allah's Apostle went out to inform the people
    about the (date of the) night of decree (Al-Qadr) but there happened a quarrel between two
    Muslim men. The Prophet said, "I came out to inform you about (the date of) the night of Al-
    Qadr, but as so and so and so and so quarrelled, its knowledge was taken away (I forgot it)
    and maybe it was better for you. Now look for it in the 7th, the 9th and the 5th (of the last 10
    nights of the month of Ramadan)."
    اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
    اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں

  • #2
    Hadrat Anas Radi ALLAH Taala Anhu reported that the Messenger of Allah Peace And Blessings Be Upon Him has said, “Everything has a heart, and the heart of the Qur’an is Yasin. Allah records anyone who recites Yasin as having recited the Qur’an ten times.”
    [Sunan Tirmidhi, Vol 2, Page 116 - Sunan Daarimi, Vol 2, Page 336]

    Comment

    Working...
    X