حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت و کردار کے بارے میں انسان کچھ بھی کہہ دے لیکن میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے تعریف میں پورا قرآن رطب السان ہے۔ بندہ تو ان کی سیرت ان کے اعمال اور ان کے کردار کو بیان کرکے اپنے لئے عبادت کے مراحل طے کرتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اہل بصیرت نے اس زمانہ کو جاہلیت کا زمانہ کہا ہے جس زمانہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے۔ اس دور کو تاریک دور بھی کہا جاتاہے۔ کیونکہ کسی رسول کی بعثت اسی وقت ہوتی تھی جب شرک اور اس کے ساتھ دیگر گناہ معاشرے میں بڑھتے چلے جاتے تھے۔
وہ، قدیم، دور جاہلیت تھا، آج ہم جس جدید دور سے گزر رہے ہیں ذرا اس کا بھی ہم جائز ہ لے لیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے فرائض منصبی بحثیت فرد واحد اور بحثیت امت مسلمہ سمجھنے کی کوشش کریں۔
ہم مسلمانوں کا ایک دین ہے مخصوص عقائد ہیں اور سب سے بڑھ کر اس دنیا کے متعلق ایک خاص نظریہ (تصور کائنات، تصور انسان اور تصور الہ) ہے جس سے ان کا نظریہ حیات وابستہ ہوجاتا ہے۔ اسی سے ان کا نیا طرز زندگی ایک نیا معاشرہ ایک نئی ثقافت و تہذیب ابھری جو چودہ سو سال سے قائم ہے۔ گو کہ امواج و تھیپڑوں نے بہت زیادہ دھندلا دیا لیکن پھر بے عملی طور پر نہ سہی، عقیدہ کے طور پر ہر مسلمان آخرت کی زندگی پر یقین رکھتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اسلام کا مقصد و منتہا انسان کی اخروی فلاح ہے۔ دنیا کی اس زندگی کی اس طرح گزارنا چاہئے کہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہو جائے ۔ گو کہ کہنے کو یا ظاہراًہم آج اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے تو ہیں یا اس کے دعویدار ہیں لیکن عملی طور پر ہم کس طرف جارہے ہیں ا سکا حال ہر شخص انفرادی طور پر جانتا ہے۔
Comment