Announcement

Collapse
No announcement yet.

اچھا گمان کرنا چاہیئے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • اچھا گمان کرنا چاہیئے




    as received
    حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اپنے دینی بھائی کے کام کو اس وقت تک اچھا ہی سمجھو جب تک کہ کوئی ایسی دلیل تمہارے ہاتھ نہ آ جائے جو تمہیں مجبور کر دے اور تمہارے لیے اس کے درست ہونے (اور اسے صحیح سمجھنے) کا راستہ بند نہ کر دے اور اپنے بھائی کی کہی ہوئی کسی بات پر بدگمان نہ ہو جانا جب تک کہ تمہیں اس کی کوئی اچھی بنیاد یا درست وجہ مل سکتی ہو۔" (کشف الریبہ شہید ثانی)
    علّامہ مجلسی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: "یعنی اپنے دینی بھائی کے ہر فعل وعمل کو اچھائی پر محمول کرو چاہے وہ ظاہر میں اچھا نہ ہو اور اس کی اس وقت تک پڑتال نہ کرو جب تک کوئی ایسی دلیل جو اس کی تاویل کرنے سے روکتی ہو تمہارے ہاتھ نہ آ جائے کیونکہ بہت سے خیالات خطا پر مبنی ہوتے ہیں اور پوچھ گچھ کی بھی ممانعت ہے جیسا کہ خدا نے فرما دیا ہے: "ولاتجسسوا"جستجو نہ کرو۔
    حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام)نے نہج البلاغہ میں حدیث کا یہ جملہ نقل کیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی مومن کے منہ سے ایسا لفظ نکلے جس کے دو معنی ہوں تو تجھے لازم ہے کہ اس کے اچھے ہی معنی نکال چاہے وہ معنی مجازی ہوں یا کنائے سے نکلتے ہوں اور کوئی قرینہ بھی نہ ہو خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ کہنے والا یہ دعویٰ کرے کہ میں نے صحیح اور اچھے معنی ہی کا قصد کیا ہے۔
    ایک بار حجاج لعین نے قبعثری کو دھمکی دی اور کہا: لاحملنک علی الادھم یعنی میں تجھے ادھم (بیڑی اور زنجیر) پر سوار کرا دوں گا (کھینچوں گا) قبعثری نے کہا: مثل الامیر یحمل علی الادھم والاشھب یعنی ایسا امیر ہونا چاہیئے جو اودہم (سیاہ رنگ کا گھوڑا جو بہترین قسم کا سمجھا جاتا ہے) پر سوار کرائے۔ حجاج نے کہا: اردت الحدید ادھم سے میرا مطلب لوہا تھا گھوڑا نہیں تھا۔ قبعثری بولا: لان یکون حدیداً خیر من ان یکون بلیدا ،تیز نگاہ اور چوکنا گھوڑا سست سے بہتر ہوتا ہے۔ (۱)
    اس حکایت میں جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ قبعثری نے حجاج کی ڈانٹ ڈپٹ کو اس کی عنایت اور مہربانی پر محمول کر کے کلمہ حدید کے جس کے بظاہر معنی بیڑی اور لوہے کے ہیں مجازی معنی نکالے جو گھوڑے وار چست وچالاک کے ہیں۔ مسلمانوں کے تمام اقوال اور افعال کے معاملے میں یہی رویہ اختیار کرنا چاہیئے اور جہاں تک ہو سکے انہیں خرابی اور بُرائی کے بجائے درستی اور اچھائی پر محمول کرنا چاہیئے۔(۱) چلیی مطول کے حاشیے میں لکھا ہے : قبعثری ایک شاعر اور ادیب تھا۔ ایک دن وہ اپنے ہم خیال ادیبوں کی جماعت کے ساتھ ایک باغ میں تھا اور وہ زمانہ کھجوریں توڑنے کا تھا۔ کسی نے حجاج خونخوار کا نام لیا تو قبعثری بولا: اللّٰھم سود وجہہ واقطع عنقہ واسقنی من دمہ "یعنی اے خدا! اس کا منہ کالا کر، اس کی گردن کاٹ ڈال اور مجھے اس کا خون پلا۔ قبعثری کی یہ ہجو حجاج کے کان تک بھی پہنچ گئی تو اس نے اسے بلوایا اور اس سے سخت بازپرس کی۔ قبعثری نے کہا :اردت بذلک الحصرم ،ان الفاظ سے میری مراد کھجوریں تھیں، میں نے کہا تھا کہ اے خدا ان کا رنگ کالا کر دے اور انہیں درخت سے الگ کر کے مجھے کھلا دے۔ حجاج نے یہ تشریح نہیں مانی اور اسے ڈراتے ہوئے کہنے لگا: لاحملنک علی الادھم میں تجھے بیڑیوں پر سوار کراؤں گا اور چونکہ لفظ ادھم عربی میں بیڑی کے علاوہ بھی معنی رکھتا ہے اور وہ ہیں مثلی گھوڑے کے، جس کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ قبعثری نے حجاج کے لفظ ادہم کو ان معنوں میں لیا اور بولا مثل الامیر یحمل علی الادھم والاشھب یعنی ایسا قوی اور سخی امیر ہونا چاہیئے جو خالص کالے یا خالص سفید گھوڑے پر سوار کرائے۔

    Our Lord! grant us good in this world

    and good in the hereafter,
    and save us from the chastisement of the fire



  • #2
    jazakAllah brother

    we should always think +ve
    میں نےجو کیا وہ برا کیا،میں نے خود کو خود ہی تباہ کیا

    جو تجھے پسند ہو میرے رب،مجھے اس ادا کی تلاش ہے

    http://www.123muslim.com/discussion-...d-arround.html

    Comment

    Working...
    X